خرم سلطان: ایک غلام لڑکی سے سلطنت کی ملکہ تک

خرم سلطان: ایک غلام لڑکی سے سلطنت کی ملکہ تک

خرم سلطان کی تصویر

16ویں صدی کی عثمانی سلطنت میں ایک غلام لڑکی کے اقتدار کی بلند ترین چوٹی پر پہنچنے کی کہانی تاریخ کی حیران کن داستانوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی ہے خرم سلطان کی، جنہیں مغرب میں روکسیلانا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اغوا اور شاہی حرم تک کا سفر

خرم سلطان کا پیدائشی نام الیگزینڈرا لیسووسکا تھا، اور ان کا تعلق یوکرین کے علاقے رتھینیا سے تھا۔ 1516 میں ایک تاتاری حملے میں انھیں اغوا کیا گیا۔ قیدیوں کے قافلے کے ساتھ انھیں کریمیا کے شہر کافا لایا گیا، جہاں سے وہ استنبول منتقل ہوئیں۔ عثمانی سلطنت میں قیدیوں کی خرید و فروخت عام تھی، اور خرم کو بھی ایک غلام کے طور پر شاہی حرم میں شامل کیا گیا۔

خرم نے شاہی حرم میں نہ صرف رہنے کا طریقہ سیکھا بلکہ عثمانی آداب، ادب، مذہب اور فنون میں بھی مہارت حاصل کی۔ ان کی ذہانت، خوش مزاجی اور خوبصورتی نے جلد ہی انھیں سلطان سلیمان کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔

سلطان سلیمان اور غیر معمولی محبت

سلطان سلیمان نے خرم کو محض ایک کنیز کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ ان کے ساتھ محبت کا تعلق استوار کیا۔ ان کے درمیان تعلقات اتنے مضبوط ہوئے کہ سلطان نے سلطنت کی روایت کے برخلاف خرم سے باضابطہ نکاح کر لیا۔ یہ قدم عثمانی تاریخ میں ایک غیر روایتی اور انقلابی فیصلہ تھا۔

سلطان سلیمان

عورتوں کی سلطنت کا قیام

خرم سلطان کے اثر و رسوخ نے حرم کو محض شاہی محل کا حصہ نہیں بلکہ سلطنت کی پالیسی سازی کا مرکز بنا دیا۔ انھوں نے حرم کو سیاست کا ایک باقاعدہ ادارہ بنا دیا، جہاں سے وہ نہ صرف خاندان بلکہ ریاستی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی تھیں۔ اس دور کو بعد میں "عورتوں کی سلطنت" کے نام سے یاد کیا گیا۔

خرم کے بعد ان کی بہو نور بانو، اس کی بہو صفیہ اور پھر قُسم سلطان نے بھی اسی طاقت کو آگے بڑھایا۔ یہ تمام خواتین سلطنت کی پالیسیوں میں نہایت سرگرم کردار ادا کرتی رہیں۔

سیاسی چالیں اور درباری سازشیں

خرم سلطان کی ذہانت صرف حسن تک محدود نہ تھی۔ انہوں نے سلطان سلیمان کی پہلی بیوی ماہِ دوران اور ان کے بیٹے شہزادہ مصطفیٰ کو سیاسی طور پر ناکارہ بنانے کے لیے کئی منصوبے بنائے۔ خرم نے سلطنت کے وزیر اعظم ابراہیم پاشا کو بھی راستے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔

شہزادہ مصطفیٰ کو بغاوت کے الزام میں قتل کیا گیا، اور اس کے بعد خرم کا بیٹا سلیم ولی عہد کے طور پر سامنے آیا۔

خرم سلطان کی فلاحی خدمات

خرم سلطان نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے بے شمار منصوبے شروع کیے۔ ان کی ہدایت پر مساجد، حمام، بازار، یتیم خانے، ہسپتال اور پینے کے پانی کے فوارے تعمیر کیے گئے۔

خرم سلطان مسجد

خرم سلطان کا سب سے اہم تعمیراتی منصوبہ استنبول میں واقع "خرم سلطان کمپلیکس" تھا جو آج بھی اپنی عظمت کی یاد دلاتا ہے۔

سفارتی محاذ پر سرگرمیاں

خرم سلطان نے نہ صرف اندرونی سیاست میں کردار ادا کیا بلکہ بیرونی سفارت کاری میں بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ انھوں نے صفوی سلطنت، پولینڈ، اور دیگر یورپی بادشاہوں سے خط و کتابت کے ذریعے روابط قائم کیے۔

یہ سفارتی رابطے اس وقت کے لیے غیر معمولی تھے، خاص طور پر ایک عورت کی طرف سے۔ ان کی سفارتی مہارت کی ایک مثال ملکہ الزبتھ اول کے ساتھ خط و کتابت اور تحائف کا تبادلہ ہے۔

خرم سلطان کی وفات اور تاریخی ورثہ

خرم سلطان کا انتقال 1558 میں ہوا۔ ان کی وفات نے سلطان سلیمان کو گہرے غم میں مبتلا کر دیا۔ ان کی یاد میں کئی یادگاریں تعمیر کی گئیں اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔

ان کی زندگی آج بھی مؤرخین، ادیبوں، اور فلم سازوں کے لیے ا